میرے داداجی کے ایک دوست محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ ساری عمر نوکری اور ملتان تک محدود رہے۔ آٹھ دس بچے تھے۔ باباجی نےنوٹ کیا کہ اس کی شگفتگی زندہ دلی‘ قہقہے مدھم پڑتے جارہے ہیں۔ صحت کمزور ہوکر وزن کم ہوگیا ہے۔ عینک کےشیشے بھی بدل گئے ہیں۔ آخر ایک دن باباجی نے اس کو پکڑ کر بٹھا لیا اور اس سے پوچھا کہ مجھے اندر کی بات بتا جب تک تونہیں بتائے گا تجھےجانے کی اجازت نہیں۔ وہ باباجی کی طبیعت کو جانتا تھا۔ باباجی نے اس کو کہا کہ اگر ہماری دوستی قلبی دوستی ہے تو کھل کر بات بتا‘ تاکہ اس کا حل سوچیں‘ اللہ سے مانگیں۔ آخرکار وہ گویا ہوا‘ میری ریٹائرمنٹ جوں جوں قریب آرہی ہے۔ میری پریشانی بڑھ رہی کہ بچے زیرتعلیم ہیں ان کی شادی بیاہ کا معاملہ کرنا ہے۔ نوکری کے بعد یہ کیسے چلے گا؟ باباجی نے پوچھا اور کچھ کہنا ہے؟ اس نے کہا بس یہی بات ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا اس موضوع پر سوچتے اور اللہ سے مانگتے ہیں۔ کل اس موضوع پر بات کریں گے۔ اگلے دن شام کو دونوں جمع ہوئے تو فرمایا: پہلے تو تُو اللہ پاک پر مکمل بھروسہ رکھ اس پر چھوڑ دے اور بے فکر ہوجا اپنی پریشانی اللہ کو دے دے۔ جب تو اس گھٹن سے آزاد ہوجائے گا تو تیری صحت سنبھل جائے گی۔ پھر تو باعزت ریٹائر ہوکر میرے پاس آجانا میں تجھے دوستوں‘ عزیزوں اور رشتہ داروں کے پتے دوں گا۔ خوب سیر کرنا جتنا چاہے وقت لگانا‘ گھر کا خرچہ دے کر جانا اور باقی سب پیسہ خرچ کرکے میرے پاس آجانا۔ وہ شیر کا بچہ لاہور‘ شملہ‘ میرٹھ‘ دہلی‘ کلکتہ وغیرہ کی سیر کرکے سوا سال بعد لوٹا‘ میاں بیوی دونوں ہمسفر تھے۔ آکر داداجی سے ملے‘ حال چال سنایا۔ انہوں نے تو پوری زندگی میں ایسی سیروتفریح میزبانی کا سوچا کیا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ بے شمار تحفے‘ تحائف اور جہیز بری کا بہت سارا سامان بھی ساتھ لائے تھے۔ قصہ مختصر کہ انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا اور دوست نے پوچھا؟ حکیم صاحب اب میں کیا کروں؟ فرمایا: ایک دستہ کاغذ‘ ایک فٹا‘ دو قلم دوات لے کر اپنے محکمہ انہار کے دفتر کے پلاٹ میں جا بیٹھ‘ اس اللہ کے بندےنے ایسا ہی کیا۔ شام کو ملنے کیلئے آیا تو باباجی سے کہا مجھے بُجہ مارو (منہ پر ہاتھ کھول کر رگڑو) عرف عام میں مجھے لعنت دو۔ اس نے اصرار کیا باباجی نے اس کو بڑی منت سے سمجھایا کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ تو کام کی بات کر۔ کہنے لگا: آج پہلے دن میں ہی میں آدھے مہینے کی تنخواہ کمالایا ہوں۔ اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری تھی‘ الفاظ منہ سے نہ نکلتے تھے ہاتھ جوڑ کر کبھی آسمان کی طرف کرتا اور کبھی باباجی کی طرف۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں